ضلع تھرپارکر کا نام سن کر ایک پسماندہ اورخشک سالی والا علاقہ ذہن میں آتا ہے، جہاں سے آئے روز عورتوں اور بچوں کی بهوک سے مرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ تھر کا ایک اور روپ بھی ہے جو ابھی تک دنیا سے اوجھل ہے۔ بطور صحافی میں نے وہاں کے کافی دورے کیئے ہیں اور تھرپارکر کا ہر دفعہ مجھے مختلف منظر ملا ہے۔
آج کے وقت تھر کی ایک نئی پہچان، ایک سلوگن تھر بدلے کا پاکستان بھی چل رہا ہے، جسے مدنظر رکھ کر تھر فائونڈیشن اور گرین میڈیا انیشئیٹو کی جانب سے خواتین کے تین روز مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا گیا، جس کے دوران تھر کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا۔ سب کی طرح ہم نے بھی تھر کی خوبصورتی کے بڑے قصے سن رکھے تھے، سنا تھا کہ بارشوں نے اسے مزید حسین بنا دیا ہے، جسے دیکھنے کے لیے ہم بھی اس قافلے میں شامل ہوگئ ۔ جب تھرپارکر کی طرف ہمارا قافلہ چلنے لگا تو ساتھ بادل بھی تھے جو وہاں جاکر اتنے خوب برسے کہ تھرپارکر جیسے خشک سالی والے علاقے کو سرسبز و شاداب بنا دیا- تھرپارکر کے حسن کو دیکھ کر دل باغ ہوگیا، واقعی جتنی باتیں سنی تھیں وہ نظر بھی آرہی تھیں، ۔ہرطرف ہریالی ہی ہریالی نظر آرہی تھی ہمیں ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کمشیرکی حسین وادیوں میں موجود ہیں۔
ہم نے سب سے پہلے انصاری گرین پارک کا وزٹ کیا جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں مختلف اقسام کے پودے اور درخت لگ گئے ہیں جن کا مقصد یہاں کے ماحول کو انسان دوست بنانا ہے۔ اسلام کوٹ میں ایسا پارک ہونا ایک بہت بڑی مثال ہے جو سندھ اینگرو تھرکول مائنز بلاک ٹو میں تھر فاونڈیشن نے کرکے دکھایا ہے۔ یہ دراصل ایسے شخص کے نام سے منصوب کیا گیا ہے جسے اس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں مئنیجر کمیونیکشن آف اینگرو جنید انصاری نے بتایا کہ یہ پارک اس ہستی کے نام سے بنایا گیا ہے جس نے سب سے پہلے بتایا کہ تھرپارکرمیں دنیا کا سب سے اچھا کوئلہ موجود ہے، جسے انجئینر بشیر انصاری کے نام یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، جیند انصاری کا کہنا ہے کہ ہر سال ان کی برسی منائی جاتی ہے جس میں انکی فیملی جو بیرون ملک مقیم ہے اسے بھی بلایا جاتا ہے۔
وہاں کی انتظامیا نے ہمیں بتایا کہ موسم کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے (کھارے) نمکین پانی کو اس قابل بنا کر یہاں پر مختلف اقسام کے پودے اور درخت لاکھوں کی تعداد میں لگائے گئے ہیں، اس کے علاوہ ہم نے مختلف سبزیاں اور فش فارم بھی بنائے ہیں، جہاں جو فوڈ حاصل ہوتا ہے وہ ہم مقامی لوگوں کو دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضرورت کے تحت اسے استعمال کر سکیں۔ انصاری پارک میں گھومنے کے لیے آس پاس کے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ اس وقت برسات میں بھی کافی لوگ گھومنے آئے ہوئےتھے۔
جب ہم نے ان سے پوچھا (تصویریں بنانے سے منع کیا) تو انہوں نے بتایا کہ ہم یہاں کے مقامی لوگ ہیں، یہ پارک کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے، ہم لوگ ایک ماہ یا پندرہ دن میں اس مقام پر گھومنے کے لیے آتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی اس پارک میں بہت ساری چیزوں کی ضرورت ہے، جیسے کہ کھانے پینے کا موثر انتظام ہونا چاہے۔ اس کے علاوہ ٹوائلٹ بھی ہونا چاہے کیونکہ ہمارے ساتھ خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور بات بھی نظر آئی جس میں جو مشہور شخصیات یہاں آتی ہیں تو ان کے نام کی تختی پودوں کے ساتھ لگائی جاتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں عورت کا معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت ضروری ہے۔ شہر ہو یا گاؤں ہوں، جب تک عورت معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوگی اس وقت تک معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں مئینجر کمیونیکشن آف اینگرو جیند انصاری اور ڈپٹی مئنیجر سندھ اینگرو کول مائنز کمپنی بلاک 2 عامر رضا نے بتایا کہ تھر فاؤنڈیشن کا اصل مقصد یہی ہے کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہے۔
جیسے خاص طور پر خواتین کو معاشی طور مضبوط کرنا تا کہ وہ اپنے اور خاندان کے لیے بہتر کام کرسکے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں سولر سسٹم پلانٹ کا وزٹ کروایا گیا جسے 18 ایکڑ رقبے کی پہاڑی ٹیلے، بِٹُ کو کاٹ کر لگایا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہاں کی صفائی کے لیے بھی وہاں کی مقامی خواتین کو رکھا گیا ہے جو اتنہائی حیران کن اور احسن بات ہے۔ وہ خواتین اس کام کو بہتر طور پر انجام دے رہی ہیں۔ وہاں کے ترجمان جاوید اور جیند انصاری نے بتایا کہ یہ خواتین جن کی تعداد پانچ ہے جو مختلف علاقوں سے صبح 8 بجے آتی ہیں اور 3 بجے تک اپنا کام کرکے چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ان کی تنخواہ 18 ہزار تھی بعد میں حکومت سندھ کی مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ 25 ہزار روپے رکھی گئی ہے ۔ جبکہ انہیں کھانے اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر سہولت دی جاتی ہیں۔ ترجمان کے مطابق ان کی کوشش اور مقصد ہے کہ ہم مقامی آبادی کو پانی اور بجلی کی سہولت فراہم کرسکیں۔ جب ہم نے خواتین سے بات کی توانہوں نے بتایا کہ پہلے ایک کلو آٹا خریدنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے اور کتنے دنوں تک کھانا نہیں کھاتے تھے، مگر سندھ اینگرو تھرکول مائنز کپمنی نے ہمیں روزگار دیا جن کے ہم شکر گزار ہیں۔ یہاں پرخواتین مختلف پراجیکٹس میں کام کررہی ہیں جن میں بھاری بھر کم ڈمپر چلانے کام بھی شامل ہے۔ جنید انصاری اور عامر رضا کا کہنا تھا کہ ڈمپر ڈرائیور خواتین کو مختلف علاقوں سے صبح 4 بجے اپنے گھروں سے لایا جاتا ہے جو 7 بجے اپنا کام شروع کرتی ہیں، یہ تین کلومیٹر کے 8 چکر لگتی ہیں اور 25 ٹن کوئلہ لے کر جاتی ہیں۔ جب خواتین سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم خوش ہیں کیونکہ ہماری زندگی کا گزر بسر بہتر ہوگیا ہے، ہمارے گھروں میں کھانے پینے کی اشیا کی فروانی ہوگئی ہیں ہم اپنے بچوں کو اسکول بھی پڑھا سکتی ہیں۔
تھر فانڈویشن کی جانب سے آر او پلانٹ بھی لگائے گئے ہیں جس سے وہاں کی آبادی کو صاف پانی کی سہولیات میسر ہیں، اس آر او پلانٹ کو آپریٹ کرنے کے لیے بھی مقامی خواتین کو ملازم رکھا گیا ہے، جو بڑی محنت سے اس منصوبے کو چلاتی ہیں۔ اسلام کوٹ میں ماروی زچہ بچہ کلینک بھی بنائی گئی ہے جہاں پر بھی مختلف علاقوں کی خواتین کو علاج کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔
منیجر کمیونیکشن آف اینگرو جیند انصاری نے کہا کہ ہم تھر کی مقامی خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے گاؤں کی خواتین کو کاروبار کرنے کے لیے 2018 سے خصوصی گرانٹ دے رہے ہیں۔ ہم نے مجموعی طورپر 53 لوگوں گرانٹ دی جن میں 31 خواتین ہیں جن میں خاص طور پر 12 معذور خواتین شامل ہیں۔ جیند انصاری نے مزید بتایا کہ گرانٹ دیتے وقت تھر فاؤنڈیشن کی ایک ٹیم اس بات کی مکمل تصدیق کرتی ہے جس کے بعد ان کے نام فائنل کیئے جاتے ہیں۔ خواتین کو جو گرانٹ دی جاتی ہے ان سے وہ بکریاں خرید کر پالتی ہیں ہار سنگھار اور روزمرہ کی اشیاءُ کی فروخت کرتی ہیں۔ کاروبار کرنے کے لیئے 55 ہزارسے 70 ہزار روپے کی رقم گرانٹ دی جاتی ہے۔
بعد میں ہمیں اس اہم جگہ کی سیر کرائی گئی جہاں کوئلہ نکالا جاتا ہے جو ایک دیکھنے والی جگہ ہے۔ یہاں پر ترجمان سندھ اینگرو کول مائنز کمپنی کا کہنا تھا کہ تھر میں 21 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر 9300 مربع کلومیٹر اراضی میں کوئلہ موجود ہے۔ یہاں پائے جائے والے 175 ارب ٹن کوئلے کے زخائر دنیا کے چوتھے نمبر کے زخائر پرہیں۔ بقول جنید انصاری کے ہر سال 37 لاکھ ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ یہاں پر آس پاس مٹی کے پہاڑ ہیں جو کوئلا نکالنے کے لیئے کھودے گئے، اور ان پہاڑوں (ٹیلوں) سے نکالی گئی مٹی کے ڈہیر ہیں۔ جو بعد میں جب کوئلہ نکل جائے گا تو پھر یہی مٹی دوبارہ یہاں ڈال کر انہیں بند کیا جائے گا۔
ہمارا اگلا پڑاؤ ننگرپارکر میں واقع کارونجھر تھا، جس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ تھرپارکر کے تحصیل ننگر پارکر جو مٹھی سے تقربیا 130 کلومیٹر دور ہے، طویل پہاڑی سلسلہ 29 کلو میٹر پر محیط ہے۔ یہ سطح سمندرسے 305 فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہاں برسات کے پانی کوجمع کرنے کے لیے متعدد ڈیم بنائے گئے ہیں۔ یہاں پر 50 سے زائد اقسام کے درخت اور 100 سے زائد پودے، جڑی بوٹیاں اور مختلف اقسام کے چرند پرند پائے جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں ہندو دھرم کے 108 دھرمی آشناں بھی ہیں۔
کارونجھر جبل پہاڑی سلسلے کو خاص طور تراشا گیا ہے۔ اس پتھر کی خوبصورتی یہ ہے کہ سورج کی روشنی سے پتھر میں ایک خاص چمک پیدا ہوتی ہے۔
سندہ اینگرو کول مائینز بلاک ٹو کے ترجمان رجب علی نے بتایا کہ موسمی تبدیلی کے اثرات اور فوڈ سیکیورٹی کو حل کرنے کے لیے ایک لاکھ مختلف اقسام کے پھل اور پودے لگائے گئے ہیں۔ جس میں نیم کے درخت زیادہ ہیں جو یہاں کی مقامی آبادی کی فوڈ سیکیورٹی کو کم کرسکتی ہے اور بدلتے موسم کی صورتحال سے بھی مقابلہ کرسکتی ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کی جانب سے گورانو جھیل کا بھی دورہ کرایا گیا جو کہ 1500 ایکڑ پر پھیلی ہوئی مصنوعی جھیل ہے، کوئلہ سے نکلا ہوا پانی اس جھیل میں جمع کیا جاتا ہے جسے مچھلی کی افزائش کے قابل بنایا گیا ہے۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر کئی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں جو اس مقامی آبادی میں تقسیم کی جاتی ہیں تاکہ وہ غذا کی قلت کو دور کرسکیں۔
ہمارا یہ دورہ ایک مطالعاتی وزٹ تھا جہاں پر ہم نے بہت دی ایسی باتیں سنیں اور دیکھیں بھی، مجھے امید ہے آپ بھی ایسے مقامات پر جا کر قدرت کا حسن دیکھیں گے۔ تھرپارکر کو قدرت نے فطری حسن سے مالا مال کیا ہے، اب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نہیں ہونی چاہیئے کہ تھر ایک پسماندہ ضلع نہیں، یہاں کے مقامی لوگ کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ تھر والے اب سب کچھ کرسکتے ہیں۔