پاکستان میں قومی سطح پرکینسر کے مریضوں کی تعداد معلومات کے لیے کوسینٹرل ڈیٹا یا رجسٹری موجودہ نہیں ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق پاکستانی خواتین میں سب سے زیادہ جو کینسر عام پایا جاتا ہے۔ وہ چھاتی کا کینسر ہے۔ مگر یہاں سروے کرنے کے بعد پتہ چلا کہ چھاتی کا کینسر ہی نہیں بلکہ سروائیکل کینسر بھی خطرناک حد تک بڑھ رہاہے۔
2022 میں 28 ہزار خواتین سروائیکل کینسر کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھین۔
سروائیکل کینسر پاکستان میں سر، گردن اور چھاتی کے کینسر کے بعد تیسرا سب سے عام کینسر ہے تقربیا 64 فیصد پاکستانی خواتین اس کنیسر میں مبتلا ہیں۔
شادی بعد اکثر خواتین کی اولین ترجیج ماں بننا ہوتی ہے۔ بہت سی خواتین اولاد جیسی نعمت سے محروم ہوتی ہیں جس میں ایک وجہ رحم کا کینسر ہے۔
سروائیکل کنیسر ہے کیا اس پر طبی ماہرین کے مطابق سروائیکل کنیسر خواتین میں تولیدی عضو کا کنیسر کہلاتا ہے۔ جس میں سرویکس میں خلیات کی غیر معمولی نشو نما ہونے لگتی ہے۔ اس کینسر کا پھیلاؤ دس سے بیس سال کے درمیان ہوتا ہے۔ اس مرض کی علامات میں ماہانہ ایام کے دروان غیر معمولی مقدار میں خون آنا۔ ماہانہ ایام کا زیادہ عرصہ تک جاری رہنا۔ سرویکس میں درد محسوس ہونا اور پیشاب کی بار بار ضرورت محسوس ہونا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سروائیکل کینسر کی علامات کے حوالے آگاہی موجود ہو تو قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔مصروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے پیپ سمیر ٹیسٹ کے حوالے سے بتایا کہ یہ ٹیسٹ رحم کے منہ یعنی سروکس سے لیاجاتا ہے۔ 30 برس کے بعد ہر خاتون کو اس کاٹیسٹ کرانا لازمی ہے۔ کیونکہ چھاتی کے کینسر کے بعد سب سے زیادہ شرح سروائیکل کینسر کی ہے اور اس کا اکثر اوقات پتہ نہیں چلتا۔ ڈاکٹر طاہرہ کا کہنا تھا کہ اس ٹیسٹ سے کینسر کے شروع ہونے سے پہلے ہی پتا لگ جا تا ہے کہ سروکس کے سیل نارمل نہیں ہیں اس لیے ضرورت احتیاط کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپ سمیر 30 برس کی عمر سے 65 برس کی عمر تک اور ہر تین سال کے وقفے سے کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی کسی مرحلے میں کوئی ایبنارملٹی مل جائے تو باقی مراحل کی باری آجاتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ نے مزید کہا کہ اگلے مرحلے میں سروکس کو ایک مائیکرو سوپ نامی مشین کی مدد سے دیکھا جاتا ہے اور متاثرہ حصے کی بائیوپسی لی جاتی ہے۔ اس عمل میں مریض کو کسی بے ہوشی کی ضرورت نہیں ہے۔ بائیوپسی لینا زیادہ تکلیفدہ عمل نہیں ہوتا۔ طبی ماہرین کے مطابق اگر رحم کا کینسر پہلے اسٹیج میں ہو تو اس صورت میں پہلا حل یہ ہوتا ہے کہ رحم کا منہ یعنی سروکس کے ایک حصے کو کاٹ کر نکال دیا جاتا ہے۔
ماہرین نے مزید بتایا کہ اس کے لیے دوتین طریقے اختیار کیے جائے ہیں لیکن اس کے بعد بھی مریض کو وقفے وقفے سے پیپ سمیر کرواتے رہنا ہوتا ہے۔تاکہ کوئی بچا کھچا سیل کہیں کسی خرابی کا سبب نہ بن رہا ہو۔ جبکہ دوسرا حل یہ ہے کہ اسے آپریشن کے ذریعے نکلوا دیا جائے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے کا کہنا ہے کہ اس وائرس کا نشانہ کرونا وائرس کی طرح گلا یا پھیپھڑے نہیں بلکہ مرد اور عورت کے جنسی اعضا ہوتے ہیں، یہ انفیکشن مرد سے عورت اور عورت سے مرد۔ مرد سے مرد اور عورت سے عورت کو بذریعہ جنسی تعلقات منتقل ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ وائرس کوئی علامات پیدا نہیں کرتا۔ لیکن بہت سے مریضوں میں چھوٹی چھوٹی لمحیاتی پھنسیاں نکل آتی ہیں جسے وارٹس کہا جاتا ہے۔ مرد کے بیرونی جنسی اعضا اور عورت کے اندورنی و بیرونی جنسی اعضا پر ان پھنسیوں کا موجود ہونا Hpv انفیکشن کاثبوت ہے۔
طبی ماہرین کاکہناہے کہ وائرس زیادہ تر جنسی کاروبار میں ملوث افرا د میں پایا جاتا ہے اور وہیں سے مختلف لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔ Hpv کی منتقلی کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ خواتین کو اگر یہ انفیکشن حمل کے دروان ہوجائے تو طبعی زچگی کے نتنجہ میں انفیکشن نوزائید کو منتقل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس انفیکشن کا سب سے بڑا خطرہ خواتین میں رحم کے منہ سروکس کا کینسر ہے جو وائرس کی ایک خاص قسم Hpv 16 اور Hpv 18 کاشکار بنتی ہیں۔ کینسر کے 70 فیصد مریضوں میں سب Hpv ہی ہوتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہر عمر کی عورت کا ویکسینیشن سے اچھے اور اس کے ساتھ باقاعدہ اسکریننگ سے سروائیکل کینسر ہونے کے امکانات 94 فی صد کم ہوجائے ہیں۔ سروائیکل کینسر سے بچنے کے لیے بچیوں کو یہ ویکسین 11 سے 12 برس کی عمر میں لگائی جاتی ہے۔ بچیوں کو اوائل عمر میں ویکسین لگانے کی وجہ سے محض یہ ہے کہ نو عمری میں ویکسین لگانے سے ان کی افادیت زیادہ ہوتی ہے اور کسی بھی واسطے سے انفیکشن منتقل ہونے کاتحفظ تمام عمر رہے گا۔
سندھ میں ایچ پی وی ویکسینیشن کے آغاز کی ٹائم لائن کے بارے میں پروجیکٹ ڈائریکٹر (ای پی آئی) ڈاکٹر ارشاد میمن کا کہنا ہے کہ ان کا ویکسینیشن شروع کرنے کا منصوبہ ہے لیکن کوئی ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اس مہم پر کروڑ ڈالرز درکار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 30 لاکھ لڑکیوں کو ایچ آئی وی ویکسین کی خریداری کے لیئے عالمی ڈونر اینجنسیوں سے بات چیت میں مدد فراہم کرے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ اس کینسر کی بنیادی وجہ ایچ پی ڈی وائرس ہے اس لیئے اس وائرس کے خلاف ویکسین لگوانے سے اس کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔ کنڈوم کے استعمال سے بھی اس وائرس کی منتقلی سے بچا جاسکتا ہے۔ خوراک میں سبزیاں، پھل جیسے کہ سیب، لوبیا، بروکلی، گوبھی، ادرک، لہسن، ساگ، پیاز۔ گاجر ۔مالٹے اور اسسٹرابیری وغیرہ شامل کرنے سے کینسر کے امکانات کم کیئے جاسکتے ہیں۔
نوجوانوں کو جنسی تعلیم اور خواتین کو سگریٹ نوشی چھڑوانے سے کینسر سے بچاؤ کیاجاسکتا ہے۔
کینسر کے پھیلاؤ کی وجہ پر خاص پروگرام نہیں اور نہ ہی اسکریننگ کے لیے مناسب انتظام موجود ہے۔
تعلیم کی کمی، غربت، بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونا بھی اس کینسر کی پھیلنے کی وجوہات ہیں لیکن احتیاط اور آگہی سے رحم کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔
ہر سال فروری میں کینسر کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس ماہ مختلف آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں۔ مگر اس علاج کے لیے حکومت کو سہولت دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک امیر شخص تو اچھا علاج کراسکتا ہے مگر غریب کہاں جائیں۔