
انتخابات کے نتائج جیسے جیسے آنے لگے، مسلم لیگ ن کے کارکنان میں مایوسی پھیلنے لگی۔ نتائج کے آنے میں وقت لگ رہا تھا اور کئی ٹی وی چینلز اپنے تجزیہ نگاروں کو بٹھا کر الیکشن ٹرانسمیشن شروع کرچکے تھے اور ظاہر ہے کہ ٹرانسمیشن چل رہی ہے تو تجزیہ نگاروں کو کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔ تقریباً تمام بڑے ٹی وی چینلز پر صرف 10 فیصد نتائج پر تبصرے شروع ہوگئے کہ تحریک انصاف آزاد امیدواروں کی شکل میں واضح اکثریت کے ساتھ مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آرہی ہے۔ کچھ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے اپنے ایجنڈا بھی ہوسکتے ہیں, مگر اس صورتحال نے ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی عوام کو حیران کردیا۔ سوشل میڈیا پر عوام پی ٹی آئی کی حیران کن فتح پر ہمدردانہ پوسٹ کرنے لگی، جبکہ پی ٹی آئی کارکنان نے جشن منانا شروع کردیا۔ مسلم لیگ ن بھی بطور پارٹی دباؤ میں آگئی، ان کا کوئی رہنماء میڈیا سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر لیگی حمایتیوں نے اعتراضات اٹھانے شروع کیئے جس کے بعد مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کو ہوش آیا اور وہ بھی میدان میں کود گئی، ساتھ ساتھ کئی لیگی رہنماء بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے لگے۔ مگر تب تک دیر ہوچکی تھی، مسلم لیگ ن بطور پارٹی انتخابات میں ہاری ہو یا نہ ہو، تحریک انصاف کی مبینہ حکمت عملی کے سامنے ایک بار پھر بری طرح ہار گئی۔ تحریک انصاف جیتنے کے باوجود دھاندلی اور وفاق میں حکومت سازی کا مینڈیٹ ملنے کا بیانیہ بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں یہ بیانیہ نہ صرف پی ٹی آئی کو زندہ رکھے گا بلکہ نئی بننے والی حکومت کو لوہے کے چننے بھی چبوائے گا۔