اصل نقصان مسلم لیگ ن کا اور موجیں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی

تحریر : عدنان ہاشمی

تحریر : عدنان ہاشمی

انتخابات کے نتائج جیسے جیسے آنے لگے، مسلم لیگ ن کے کارکنان میں مایوسی پھیلنے لگی۔ نتائج کے آنے میں وقت لگ رہا تھا اور کئی ٹی وی چینلز اپنے تجزیہ نگاروں کو بٹھا کر الیکشن ٹرانسمیشن شروع کرچکے تھے اور ظاہر ہے کہ ٹرانسمیشن چل رہی ہے تو تجزیہ نگاروں کو کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔ تقریباً تمام بڑے ٹی وی چینلز پر صرف 10 فیصد نتائج پر تبصرے شروع ہوگئے کہ تحریک انصاف آزاد امیدواروں کی شکل میں واضح اکثریت کے ساتھ مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آرہی ہے۔ کچھ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے اپنے ایجنڈا بھی ہوسکتے ہیں, مگر اس صورتحال نے ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی عوام کو حیران کردیا۔ سوشل میڈیا پر عوام پی ٹی آئی کی حیران کن فتح پر ہمدردانہ پوسٹ کرنے لگی، جبکہ پی ٹی آئی کارکنان نے جشن منانا شروع کردیا۔ مسلم لیگ ن بھی بطور پارٹی دباؤ میں آگئی، ان کا کوئی رہنماء میڈیا سے بات نہیں کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر لیگی حمایتیوں نے اعتراضات اٹھانے شروع کیئے جس کے بعد مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کو ہوش آیا اور وہ بھی میدان میں کود گئی، ساتھ ساتھ کئی لیگی رہنماء بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے لگے۔ مگر تب تک دیر ہوچکی تھی، مسلم لیگ ن بطور پارٹی انتخابات میں ہاری ہو یا نہ ہو، تحریک انصاف کی مبینہ حکمت عملی کے سامنے ایک بار پھر بری طرح ہار گئی۔ تحریک انصاف جیتنے کے باوجود دھاندلی اور وفاق میں حکومت سازی کا مینڈیٹ ملنے کا بیانیہ بنانے میں کامیاب ہوچکی ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں یہ بیانیہ نہ صرف پی ٹی آئی کو زندہ رکھے گا بلکہ نئی بننے والی حکومت کو لوہے کے چننے بھی چبوائے گا۔

بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ میڈیا میں ہونے والی الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران ملک ریاض کا بہت زیادہ عمل دخل تھا، جو نواز شریف یا ن لیگ کو پریشان کرکے کوئی خاص ہدف حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بعض صحافی اس بات کی تردید کر رہے ہیں، مگر یہ الزام رانا ثناء اللہ اور دیگر لیگی رہنماؤں کی جانب سے بھی لگایا جارہا ہے۔ ن لیگ کا مؤقف ہے کہ نواز شریف کو 190 ملین پاؤنڈ کیس کو ہضم کرنے میں عدم دلچسپی دکھانے کی سزا مل رہی ہے۔
بعض لیگی ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ معروف صحافی حامد میر مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے جھانسے میں آگئے، انہیں جعلی فارم 45 بھیجے گئے اور وہ اس کی تصدیق نہ کروا سکے۔ انہی جعلی فارم 45 کے باعث انہوں نے انتخابات کی رات کو الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران کئی امیداروں کی برتری کی خبر بریک کی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف حامد میر ہی نہیں بلکہ دیگر کئی نامور اینکرز بھی جعلی فارم سے متاثر نظر آئے۔
لیگی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیتنے والے 100 آزاد امیدواروں کو کل ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹ ملیں ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ساڑھے چار کروڑ ووٹ ملے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پورے پاکستان نے صرف عمران خان کو ووٹ دیئے ہیں۔
ایک اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ رانا ثناءاللہ، جاوید لطیف، خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر جیسے دیگر رہنماء کیسے ہار گئے اور رانا تنویر، خواجہ آصف، ایاز صادق جیسے امیدوار کیسے جیت گئے۔ یعنی نواز شریف کے قریبی سمجھنے والے اسمبلیوں میں قدم نہیں رکھ سکیں گے۔
لیگی کارکنان و رہنماؤں کیلئے سب سے حیران بات خواجہ سعد رفیق کی سردار لطیف کھوسہ جیسے امیدوار سے ہار تھی۔ کہا جارہا ہے کہ ن لیگ کے اعلیٰ عہدیدار نے مقتدر حلقوں سے بعض رہنماؤں کی قربانی دے کر بعض کو جتوانے کیلئے بات کی۔
صحافی طلعت حسین نے بھی سوال اٹھایا کہ ’’عمران خان کی جس لہر نے نواز شریف کے تگڑے حلقوں کو تباہ کیا وہ لہر پورے سندھ اور بلوچستان میں کیوں نہ چل سکی۔ اس لہر نے صرف نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کو اڑایا، جبکہ شہباز شریف کابینہ کے تمام ممبران محفوظ رہے‘‘۔
صحافی ابصار عالم نے کہا کہ نواز شریف صاحب کے چھ پیاروں میں سے ایک جب ہر جگہ بیٹھ کر یہ فرماتا پھرے کہ میاں صاحب کی تو اب یادداشت ہی کام نہیں کرتی تو سمجھ جائیں کہ میاں صاحب کو وزارت عظمیٰ سے دور رکھنے کا باریک کام کس کس نے کس کس لیول پر کیا ہے۔
لیگی رہنماء جاوید لطیف نے ٹی وی پروگرام میں سوال اٹھایا کہ ’’مانسہرہ اور لاہور میں جس طرح نوازشریف کے حوالے سے میڈیا پر باتیں ہوتی رہیں کیا یہ بائی ڈیزائن نہیں؟ نوازشریف کے نام پرووٹ لینے والے جیت جائیں اور نوازشریف کیلئے تاثر دیا جائے کہ وہ ہار رہے ہیں؟ ایسا ماحول بنایا گیا کہ وہ چوتھی بار وزیراعظم نہ بنیں‘‘۔
ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چند سالوں قبل جو یہ خبر سننے کو ملی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ مائنس نواز اور مائنس زرداری چاہتی ہے۔ جو اس فارمولے پر اب بھی قائم ہے اور اس کا عملی نمونہ ہم نے حالیہ انتخابات میں دیکھ لیا۔ نہ صرف نواز شریف بلکہ اس کے قریبی سمجھے جانے والے تمام رہنماء فارغ ہوچکے ہیں۔ شہباز شریف کو کئی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کا وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانا چاہتی تھی، اب وہ عملی طور پر ہوتا نظر آرہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف مکمل مایوسی کا شکار ہیں اور تمام معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں۔ نواز شریف پر لگا ’’کراس‘‘ بہت گہرا ہے۔
نواز شریف پہلے ہی شہباز شریف کے منانے پر 2022 میں حکومت بنانے پر رضامند ہوئے، جس سے پارٹی کی نہ صرف مقبولیت گئی بلکہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے بھی محروم ہونا پڑا، جس کا فائدہ مکمل طور پر عمران خان نے اٹھایا۔
مسلم لیگ ن میں کسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی کچھڑی ضرور پک رہی ہے۔ شہباز شریف کی اپنے بڑے بھائی سے وفاداری کی گواہی چاہے کوئی بھی دے، مگر لیگی کارکنان جو پہلے ہی شہباز شریف اینڈ کمپنی پر شک کا اظہار کرتے رہے، اب کھل کر سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف پارٹی کے اندر سے سازش کا جب ہر کوئی ذکر کرتے نظر آئے تو دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزراء ن لیگ میں تقسیم کے بیانات دیا کرتے تھے۔
مسلم لیگ ن کو دوران حکومت کئی سخت فیصلے کرنے ہوں گے، جس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ مسلم لیگ ن اگلے سال اتنی سیٹیں بھی نکال پائے گی۔ اگلے انتخابات میں تحریک انصاف نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں بھی واحد اکثریتی جماعت بن جائے گی۔
ن لیگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اب بھی 90 کی دہائی کی سیاست کر رہی ہے، جو درست بھی ہے۔ روایتی طریقے سے انتخابات لڑنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ جن سے مقابلہ ہے وہ غیر روایتی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ڈیجیٹل ونگ کی تو ہمیشہ تعریف ہوتی ہے مگر اس انتخابات میں جس طرح انہوں نے کام کیا، وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنا ڈیجیٹل ونگ انتہائی مضبوط کیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کا یہ عالم ہے کہ ان کا سوشل میڈیا ہیڈ عاطف رؤف نہ صرف بری طرح ناکام ہے، بلکہ ان صاحب کو ان کی اپنی پارٹی کے کارکنان ہی پسند نہیں کرتے۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے عام افراد زیادہ بہتر انداز سے اپنی پارٹی کا بغیر کسی تنخوہ کے دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی جانب سے بھی بار بار مرکزی رہنماؤں کو ٹیگ کر کے عاطف رؤف کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں مگر ن لیگ کی قیادت پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
دوسری طرف سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب میڈیا کو منہ ہی نہیں لگاتیں۔ وہ دوران حکومت بھی میڈیا کو دستیاب نہیں ہوتیں تھی، جبکہ دیگر پارٹیوں کی بات کریں تو وہ اپنا مؤقف بیان کرنے کے لیئے ہمیشہ دستیاب ہوتے تھے۔ مریم اورنگزیب کا کام ہی میڈیا کو ہینڈل کرنا ہے، مگر وہ اپنی قیادت کی پرسنل سیکریٹری کے طور پر کام کرتی نظر آتیں ہیں۔ ان کے مقابلے میں عظمیٰ بخاری انتہائی متحرک ہیں، وہ نہ صرف ٹی وی چینلز پر پارٹی کا دفاع کرتی ہیں بلکہ انہوں نے اپنا ذاتی یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا ہے کہ جہاں وہ پارٹی کا مؤقف بھرپور انداز سے رکھ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے فائدے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ مریم نواز کے حالیہ دنوں میں اپلوڈ ہونے والے ویڈیو پر پی ٹی آئی کے اشتہارات چل رہے تھے، جس میں وہ عمران خان یا پی ٹی آئی کا بیانیہ پیش کر رہے تھے۔ ممکن ہے کہ مریم نواز کا انٹرویو سننے والے کسی شخص نے متاثر ہو کر ن لیگ کے بجائے پی ٹی آئی کو ہی ووٹ ڈال دیا ہو۔
مجید نظامی کا کہنا ہے کہ الیکشن نتائج کو سامنے رکھیں تو وسطی پنجاب میں مسلم لیگ ن مسلسل نیچے کی جانب جا رہی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف مضبوط ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے 2013 میں 88 ممبران قومی اسمبلی، 2018 میں کم ہو کر 49 اور اب 2024 میں 38 ایم این اے منتخب ہو سکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی وقتی لہر کا نتیجہ نہیں ہے۔ کیا مسلم لیگ ن کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی سنجیدہ ضرورت ہے؟
تحریک انصاف کو بھی کئی صحافی و سیاست دان سمجھاتے تھے کہ فلاں فلاں کام نہ کریں مگر انہوں نے نہیں مانی اور اپنا نقصان کروا بیٹھے، ٹھیک اسی طرح مسلم لیگ ن کے بارے میں جو کہا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے اس پر غور نہیں کیا تو پی ٹی آئی تو پھر بھی سنبھل بیٹھی، مسلم لیگ ن نہیں سنبھل سکے گی۔
مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ بننے جارہی ہیں، مگر ان کے لیئے یہ عہدہ کسی طرح بھی آسان نہ ہوگا، انہیں تگڑی اپوزیشن کا سامنا ہوگا ہی مگر انہیں پارٹی کے اندر سے بھی مسائل کو منہ دینا پڑے گا۔ ایک خاتون ہونے کے باوجود وہ خواتین کو زیادہ متحرک نہیں کرسکیں۔ جب کوئی غریب یا مڈل کلاس خاتون مریم نواز کے مہنگے کپڑے، مہنگے بیگ، سونے کی چوڑیاں یا انگھوٹی وغیرہ دیکھے گی تو اسے کیسے اپنائیت محسوس ہوگی۔ مریم نواز کے سامنے پاکستان میں ہی بینظیر بھٹو جیسی شخصیت کی مثال موجود ہے، جو سانحہ کارساز ہونے کے بعد زخمی و جاں بحق کارکنان کے پاس گئیں، حالانکہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق تھے۔ بینظیر بھٹو نے کوئی سیکورٹی بہانا نہیں کیا۔ اس عمل نے کارکنان کو نہ صرف حوصلہ دیا، بلکہ بینظیر بھٹو کے قد میں بھی اضافہ ہوا۔ اگر سیاسی مخالفت کے باعث بینظیر بھٹو کے نقش قدم پر وہ نہیں چلنا چاہتیں تو پڑوسی ملک میں اندرا گاندھی، سونیا گاندھی سمیت کئی خواتین سیاست دانوں سے بھی سبق حاصل کر سکتی ہیں۔
مسلم لیگ ن کا کارکنان نواز شریف سے محبت کرتا ہے، ان کے لیئے مریم نواز بطور متبادل تو قابل قبول ہے، مگر کسی بھی طرح وہ یہ مقام شہباز شریف کو نہیں دینا چاہتے۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا نقصان تو اصل میں صرف مسلم لیگ ن یا نواز شریف کو ہوا ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی تو فائدے میں رہی ہیں۔ پی ٹی آئی اس وقت بھی میڈیا کی لاڈلی نظر آ رہی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی میڈیا پر مکمل اعتماد کے ساتھ اپنا مؤقف رکھ رہی ہے۔
نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ طور پر ہاتھ ملا کر اپنے ہاتھ ملتے رہ گئے، وہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ کوئی شکوہ کرسکتے ہیں نہ کوئی گلہ۔ انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ بننے کا جو ٹیگ ان پر لگ رہا تھا، ان کی پارٹی اس تاثر کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ اگر پارٹی میں نواز شریف کے خلاف واقعی سازش ہو رہی ہے تو وہ اس کا بھی ذکر نہیں کر سکیں گے، کیونکہ پارٹی بری طرح تقسیم ہو جائے گی، اس کا فائدہ بھی مخالفین کو ہوگا۔
ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم دیر سے شروع کی اور جلسوں کا زور پنجاب تک رکھا، جبکہ اس کے مقابلے میں بلاول بھٹو زرداری مکمل طور پر متحرک تھے۔ ان کی محنت قابل تعریف ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کا بغیر کسی انتخابی مہم کے اتنی نشستیں حاصل کرلینا، ن لیگ کے سیاسی تجربے پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ جس انتخابی مہم کو خود نواز شریف لیڈ کر رہا ہو، اہم مخالف جیل میں ہو، اس کے باوجود شکست دراصل نواز شریف کی سیاست کی شکست ہے۔
اب پیپلزپارٹی نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے، مسلم لیگ ن کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دیں گے، مگر وزارتیں نہیں لیں اور اپوزیشن کریں گے۔ سیاسی مفاہمت اپنی جگہ مگر بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی جڑیں دیگر صوبوں باالخصوص پنجاب میں مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیئے انہیں ن لیگ کو نشانہ بنانا ہوگا۔ تو ن لیگ کے لیئے حکومت کرنا کسی صورت آسان نہ ہوگا۔ بڑی اپوزیشن ہوگی۔ دوسری طرف پی ٹی آئی ایوان کو سکون سے چلنے نہیں دے گی۔ اس بار پی ٹی آئی کے وہ اراکین بھی اسمبلی کا حصہ ہوں گے، جن کے بیانات کو کارکنان میں بہت پذیرائی ملتی ہے اور وہ لوگ جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔
عمران خان کی غلطیوں کے باعث سخت معاشی فیصلے پی ڈی ایم حکومت کے گلے میں آئے اور اب ن لیگ کو ایک بار پھر سخت محنت اور فیصلے کرنا ہوں گے، لیکن ابھی سے کہہ سکتا ہوں کہ اس محنت کا نتیجہ ن لیگ کو ملنے کے بجائے کسی اور پارٹی کو ملے گا، جب وہ پارٹی حکومت کرے گی تو ملک کے کئی مسائل حل ہوچکے ہوں گے اور انہیں عوام کو ڈیلیور کرنا آسان ہوجائے گا۔ ن لیگ کے حصے میں سخت معاشی فیصلے کے نتائج غیر مقبولیت کی شکل میں ملیں گے۔
لیگی قیادت کو عوام کو ریلیف تو دینا ہے مگر اس سے اہم بیانیہ دینا ہوگا اور وہ بیانیہ جارحانہ ہونا چاہیے۔ مریم نواز ن لیگ کو فرنٹ سے لیڈ کرے تو ہی پارٹی کی بچت ممکن ہے۔ بہرحال لیگی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اپنی بادشاہت والا رویہ یا سوچ ترک کرنی ہوگی، ورنہ ان کی جماعت دفن ہونے جا رہی ہے، اسے کسی کا کندھا یا کوئی بھی بیانیہ بچا نہیں پائے گا۔
You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.