تحریر : عدنان ہاشمی
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو تب کسی بھی اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان اس حملے کے کس قسم کے اثرات کا شکار ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد طالبان کی حکومت بننے پر پاکستانی عوام بہت خوش دکھائی دیتے ہیں، جسے سوشل میڈیا پر عوامی اظہار رائے سے واضح دیکھا جاتا ہے۔ جب طالبان افغانستان میں ضلع پر ضلع اور شہر پر شہر قبضہ کرتے جارہے تھے تو کئی پاکستانی شہری طالبان کے ترجمان والا کردار ادا کرتے ہوئے طالبان کی کامیابیوں کی خبر اور تبصرے کررہے تھے۔
دوسری طرف ہمارے پڑوسی ملک بھارت ماتم کررہا ہے۔ اسے بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اس بات کا یقین نہیں تھا کہ افغان فورسز اتنی آسانی سے اپنے گھٹنے ٹیک دیں گی۔ سرکار تو ایک طرف بھارتی شہری بھی افغان صورتحال پر اپنی رائے کا اظہار کررہے تھے۔ وہ پہلے افغان فورسز کے گن گاتے رہے، پھر صورتحال تبدیل ہونے پر احمد شاہ مسعود کو ہیرو بنا کر پیش کرنے لگے، جس پر بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
اب اس صورتحال میں کئی حلقے یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ پاکستانیوں کو طالبان کی کامیابی سے خوشی نہیں منانی چاہیے کیونکہ اس کامیابی سے پاکستانی طالبان یا پاکستان مخالف شدت پسند گروہوں کو نہ صرف حوصلہ افزائی ملے گی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر پاکستان میں بڑی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کی کامیابی سے پاکستان میں موجود شدت پسند گروہ پراعتماد ہوں گے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں تھی تو کیا پاکستان محفوظ تھا؟ پاکستان کے دہشت گردی کے نتیجے میں جتنی جانیں گنوائیں ہیں اس وقت وہاں نام نہاد جمہوری افغان حکومت تھی۔
مجھے مختلف افراد سے بات چیت کے دوران یہ اندازہ ہوا کہ عوام کی بڑی تعداد افغانستان کی پاکستان دشمنی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی تو اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں آپ کو تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے تھوڑا ماضی بتاتا چلوں۔
1893 میں امارات افغانستان کے امیر عبدالرحمان خان اور برطانیہ کے سفارت کار مورٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان اپنی حدود اور اثر و رسوخ کی حد کو طے کرنے اور سفارتی و تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیئے معاہدہ طے پایا، جس میں ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا گیا۔
اس معاہدے کے بعد برطانیہ نے افغانستان کو ایک آزاد ریاست تو تسلیم کیا مگر خارجہ امور اور سفارتی تعلقات اپنے ہاتھ میں رکھے۔
6 مئی 1919 میں برطانیہ اور افغانستان کے درمیان تیسری جنگ (جسے افغانی جنگ آزادی بھی کہتے ہیں) شروع ہوئی اور اس کا اختتام 8 اگست کو جنگ بندی معاہدے کے ساتھ ہوا۔ معاہدے میں ایک بار پھر معمولی تبدیلی کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو برٹش انڈیا اور افغانستان کے درمیان بارڈر تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان کو برطانیہ سے مکمل آزادی دی گئی اور افغانی ہر سال اس دن کو آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔
پاکستان کو برطانیہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے 1893 اور 1919 کے معاہدے ورثے میں ملے، جس کے تحت این ڈبلیو ایف پی کو پاکستان کا صوبہ قرار دیا گیا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے بانی رہنماء باچا خان نے مخالفت کی اور بیانیہ دیا کہ این ڈبلیو ایف پی (خیبر پختونخوا) کو آزاد پشتونستان یا پھر افغانستان میں شامل کیا جائے، جس سے نوزائیدہ ریاست پاکستان کو قیام کی آغاز میں ہی ایک انتہائی مشکل صورتحال سے گزرنا پڑا۔
افغانستان نے صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، اس دوران ریاست افغانستان مکمل طور پر پاکستانی سیاست میں مداخلت کرتی رہی اور پاکستان مخالف تحریک کو طاقت دیتی رہی۔ اس معاملے کا آغاز افغان وزیراعظم محمد داؤد خان جو بعد میں صدر کہلائے کے دور حکمرانی میں ہوا۔
افغان علاقوں سے پاکستان کی جانب فائرنگ کی جاتی رہی، جواب میں پاکستان کی فضائیہ نے ان علاقوں کو نشانہ بنایا جہاں سے کارروائیاں کی جارہی تھیں۔ اس صورتحال کے بعد افغانستان برطانیہ سے کیئے گئے معاہدے سے مکر گیا اور ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
افغانستان نے مؤقف اختیار کیا کہ برطانیہ سے معاہدہ دباؤ میں کیا گیا تھا، لیکن اقوام متحدہ پر اس کا اثر نہ ہوا۔ افغانستان کے اس مؤقف کو دنیا میں کہیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھینچی گئی سرحد کو دنیا انٹرنیشنل بارڈر ہی تسلیم کرتی ہے۔
مختلف اوقات میں افغانی سربراہ داؤد خان پشتونستان تحریک کی حمایت یا اس سے متعلق معاملات کو ہوا دیتے رہے، یہاں تک انہوں نے پختون زلمے نامی تنظیم اور بلوچ گوریلاز کو ٹریننگ دی، جس کے باعث پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی آگئی۔
افغانستان اور پاکستان کی کشیدگی کے دوران بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کے حوصلے بلند ہوئے، جس کی مدد کے لیئے بھارت نے افغانستان کو بھی استعمال کیا۔
1976 میں داؤد خان نے پاکستان میں نہ صرف پشتونستان تحریک بلکہ پراکسی وار کی مزید زیادہ شدت سے حمایت و مدد کرنا شروع کردی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بڑھتی غیر ملکی مداخلت کو روکنے کے لیئے افغانستان میں جواب دینا شروع کردیا اور وہاں چلنے والی اسلامی بنیاد پرست تحریک کی مدد شروع کردی۔
سردار داؤد خان نے صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے نئی خارجہ پالیسی کا نظریہ پیش کیا، جس کے تحت 1976 میں پاکستان کا دورہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو سے پشتونستان تحریک کے معاملے پر نہ صرف معاہدہ کیا، بلکہ ڈیورنڈ لائن کو انٹرنیشنل بارڈر کی حیثیت سے تسلیم بھی کیا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوگئے، مگر اس کے باوجود افغانی و بھارتی ایجنسیاں پاکستان کے خلاف کام کرتی رہیں اور افغان سرکار کی پاکستانی دشمنی بھی عیاں ہوتی رہی۔
افغانستان میں سویت یونین کی شکست اور طالبان کی حکومت تک پاکستان، بھارت پر بھاری رہا، مگر افغان سرزمین پر امریکی حملے کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی اور افغانستان ایک بار پھر پاکستان کے لیئے درد سر بن گیا۔
حامد کرزئی اور خاص طور پر اشرف غنی کی دور صدارت میں شاید ہی ایسا کوئی دن ہو جس دن پاکستان پر کسی قسم کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔ افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح تقریباً روز ہی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پاکستان کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ حال ہی میں طالبان کی افغان علاقے پنجشیر میں کارروائی کے دوران بھی پاکستان پر الزام لگانے سے باز نہیں رہے۔
بھارت جس کی افغانستان سے ایک انچ سرحد بھی نہیں ملتی اس کے باوجود پاکستان دشمنی میں اپنا واضح اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ افغانیوں کے دل میں جگہ بنانے کے لیئے وہاں لاکھوں ڈالرز بھی خرچ کیئے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کھل کر استعمال کیا۔ بھارتی قونصل خانے دہشت گردی کے مرکز تھے، جو افغانیوں کو بھارت لے جا کر برین واش کرتے اور کئی دہشت گردوں کو تربیت بھی فراہم کی۔ افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس بھارتی خفیہ ایجنسی راء کا ذیلی ادارہ بن کر پاکستان کے خلاف اپنی کارروائیاں کرتی رہی۔
چھ ستمبر کو شیخ رشید نے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران بتایا کہ افغانستان میں 60 سے زائد کیمپ پاکستان کے خلاف کام کررہے تھے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کتنے بڑے پیمانے پر کام ہورہا تھا۔
بارڈر پر کھڑے افغان فوجیوں نے کئی بار پاکستانی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی، جس میں پاکستانی فوجی اور شہری زخمی و شہید ہوئے، اس کے ساتھ ساتھ افغان سرزمین سے پاکستانی سرحد پر کھڑے ہمارے جوانوں اور ان کی چوکیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا۔
پاکستان کے سندھی اور بلوچ و دیگر علیحدگی پسند گروپوں، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسندوں کی کارروائیوں کا مرکز بھی افغانستان ہی تھا۔ اس معاملے پر پاکستان کہتا رہا مگر دنیا میں کسی پر اثر نہیں پڑا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے جو بھی مطالبات تھے وہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا، چونکہ ان کے زیادہ تر مطالبات کا تعلق فوج سے بنتا تھا تو افغان سرزمین سے انہیں مکمل سپورٹ دی گئی۔ سرکار تو سرکار افغان ٹی وی چینل کے ملازمین اپنے کمپیوٹر اسکرین پر منظور پشتین کے وال پیپر اور پشتین کیپ پہن کر تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے تھے، جس سے ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام کو تکلیف ہوتی تھی۔
افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان نے 20 سالوں بعد سکون کا سانس لیا، ہمارا مغربی بارڈر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سیکورٹی اداروں کے لیئے درد سر بنارہا، اب وہاں مکمل امن ہے۔
پاکستان میں عوام کو دو قسم کے انتہاپسندوں کا سامنا ہے کہ ایک وہ جو طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور دوسرا وہ جو انہیں ہیرو مانتے ہیں۔ عام پاکستانی کیا سمجھتا، کہتا اور محسوس کرتا ہے، کسی کو اس بات کی پروہ نہیں۔
عام پاکستانی طالبان کی جیت پر خوشیاں منارہا ہے اور وہ کیوں نہ منائے، جب اس نے دیکھا کہ افغانستان سے سرکاری سطح پر پاکستان مخالف بیان آنا بند ہوگئے، جب وہاں کی سرزمین پر اب بھارت کے لیئے سرکاری سرپرستی میں استعمال نہ ہوسکے گی۔ اب چمن اور طورخم پر کھڑے افغان اہلکار پاکستانیوں اور پاکستانی فوجی اہلکاروں پر تضحیک آمیز جملے نہ کس سکیں گے۔ جب افغان فوجی بلا اشتعال پاکستانی جوانوں پر نشانہ نہیں لگائیں گے۔
ضروری نہیں ہے کہ عام پاکستانی طالبان کی حمایت صرف اس کے نظریے کی بنیاد پر ہی کرتا ہو، حمایت کی وجہ وہ بھی ہو سکتی ہے جو اوپر بیان کی گئی۔
سرحد پار دہشت گردی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ پاکستانی سیکورٹی ادارے کئی بڑے فوجی آپریشن کے بعد بھی اس سطح کی کامیابی نہ حاصل کرسکے جو انہیں پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے سے حاصل ہوئی۔
میری ناقص سوچ یہی کہتی ہے کہ پاکستان کی افغانستان میں مداخلت کا فیصلہ بلکل درست تھا اور اس مداخلت کی ابتداء افغانستان سے ہی ہوئی تھی۔ اگر پاکستان مداخلت نہیں کرتا شاید اپنے قیام کے آغاز میں ہی دو لخت ہوجاتا۔ اگر افغان چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کی سرزمین میں مداخلت نہ کرے تو انہیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت افغانستان میں قدم نہ جمائے۔ اگر بھارت افغانستان میں ہوگا تو پاکستان بھی ہوگا۔
20 سال ایک بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اس دوران افغان بچے جوان ہوگئے اور افغان سرکار، میڈیا اور بھارتی پروپیگنڈا نے ان کے دلوں میں پاکستان کے لیئے نفرت بھر رکھی ہے، جو ورلڈکپ کے پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ کے دوران واضح طور پر نظر آئی۔ اسٹیڈیم میں افغانی بلا اشتعال پاکستانیوں پر جملے کستے رہے اور نعرے بازی بھی کی، یہاں تک کہ اسٹیڈیم کے اندر ہی ان پر حملہ بھی کیا گیا، اس طرح کی صورتحال تو کبھی پاکستان اور بھارت کے میچ کے دوران بھی نظر نہ آئی۔
پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان سے تعلقات خراب رکھے۔ ایران سے بھی پاکستان مخالف بیانات سامنے آرہے ہیں تو اب افغانیوں کے دلوں میں پاکستان کے لیئے موجود نفرت کے خاتمے کے لیئے کام کرنا ہوگا۔
حالانکہ جب لاکھوں افغانیوں کی مہمان نوازی اور افغانیوں کا پاکستان میں کرکٹ سیکھ کر افغانستان کی قومی ٹیم میں جگہ بنانا بھی اگر ان کے دلوں میں گھر نہ بناسکا تو آگے بھی امید رکھنا فضول ہے، مگر پاکستان کو بطور ریاست کوشش ضرور کرنی چاہیے۔