پی ٹی آئی کی سندھ میں انٹری، پیپلز پارٹی متحرک، ذوالفقار مرزا کی تلاش

تحریر : محمد عدنان ہاشمی

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کراچی سمیت سندھ بھر کی سیاست میں بھرپور طریقے سے داخل ہونے کا اعلان کردیا گیا ہے، اس سلسلے میں چند روز قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، حلیم عادل شیخ، ارباب رحیم و دیگر شامل تھے۔

شیخ رشید سمیت پی ٹی آئی کے دیگر وزیروں کی جانب سے بھی سندھ میں پی ٹی آئی کے حوالے سے تابڑ توڑ بیانات جاری ہیں۔ ان بیانات میں سندھ ملک کے دیگر حصوں کی طرح حکومت بنانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سندھ کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ بیانات کا سلسلہ ایسے ہی نہیں دیا جارہا، بلکہ پیپلز پارٹی کی مبینہ تین سالہ ’’ڈیل‘‘ کی مدت ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی میدان میں آئی ہے۔ اسی وجہ سے سندھ میں حلیم عادل شیخ جو پہلے ہی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو شدید قسم کی تنقید کا نشانہ بناتے تھے اور اب مزید اعتماد کے ساتھ اپنی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب برقرار رکھا ہوا ہے۔

دوسری جانب ارباب غلام رحیم کی معاون خصوصی کی حیثیت سے انٹری نے بھی پیپلز پارٹی کو پریشان کردیا ہے، جنہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران پیپلز پارٹی کو لوہے کے چننے چبائے۔ کراچی میں خرم شیر زمان بھی انتہائی متحرک ہوگئے ہیں۔

تحریک انصاف کی نظریں اندرون سندھ کے علاوہ خصوصی طور پر صوبائی دارالحکومت کراچی پر ہے۔ پی ٹی آئی کراچی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا چاہتی ہے (کیونکہ اب کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی سے ووٹر ناراض ہے) اور اس کے لیئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ آنے والے دنوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کے لیئے خصوصی ترقیاتی پیکیجز، وفاقی وزراء اور وزیراعظم سمیت تمام پی ٹی آئی متحرک نظر آئے گی۔

اب پی ٹی آئی بڑی جامع منصوبہ بندی کے تحت پیپلز پارٹی پر چار اطراف سے سیاسی طور پر حملہ آور ہوگی۔ ایک طرف وفاقی مرکز سے بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا، تو دوسری طرف ارباب غلام رحیم، تیسری طرف حلیم عادل شیخ اور پھر کراچی میں ایم کیو ایم کے ذریعے پیپلزپارٹی کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

اگر پیپلز پارٹی کی بات کریں تو وہ پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کا مؤثر جواب دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب کسی حد تک جواب دیتے ہیں، مگر وہ میڈیا کی اس طرح توجہ حاصل نہیں کرپاتے، جس طرح قادر پٹیل قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر کے ذریعے نہ صرف خبروں میں نمایاں جگہ حاصل کرلیتے ہیں، جبکہ کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر ان کے خطاب کی ویڈیو وائرل ہوتیں نظر آتیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ پیپلز پارٹی کا جواب زیادہ تر دفاعی ہوتا ہے، خاص طور پر مرتضیٰ وہاب اپنی پریس کانفرنس میں اکثر ایسے بیانات دیتے ہیں، جس میں سے بے بسی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ضرورت ہے کہ ایک ذوالفقار مرزا کی، جنہیں پارٹی مخالفین نے بہت کچھ کہا مگر وہ ٹی وی چینل کا کئی گھنٹوں کا وقت اور اخبارات میں نمایاں سرخیاں حاصل کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : فردوس عاشق اعوان کا جذباتی رویہ اور پارٹی کارکنان

اسی سیاسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی متحرک ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں در اصل آنے والی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہی کی گئیں ہیں، جو کسی صورت پارٹی چیئرمین کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر ان تبدیلیوں کی ہوا کے دوران ذرائع ایک اہم خبر یہ بھی دیتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جیسے پڑھے لکھے شخص کو تبدیل کرکے ان کی جگہ وزارت اعلیٰ کی کرسی آغا سراج درانی کو دی جائے گی۔

اگر مذکورہ خبر سچ ثابت ہوتی ہے تو یہ نہایت ہی حیران کن قدم ہوگا، کیونکہ قائم علی شاہ کے باعث سندھ کا اہم عہدہ جسے ملک کے دیگر حصوں میں سنجیدہ نہیں لیا جارہا تھا، کو واپس اہم ترین بنایا۔ مراد علی شاہ نے نہ صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے تاثر بہتر کرنے میں اہم کردار کیا بلکہ وفاقی حکومت کو بھی ٹف ٹائم دیئے رکھا۔ اس وجہ سے یہ خبر کم از کم میرے لیئے تو حیران کن ضرور ہوگی، کیونکہ میں کسی صورت مراد علی شاہ کا متبادل آغا سراج درانی کو نہیں سمجھتا۔

پی ٹی آئی کو کراچی سے بڑی تعداد میں قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ملیں، مگر پی ٹی آئی کی تمام تر توجہ پنجاب حکومت پر رہی، جس کی وجہ سے شہر کو نظر انداز کرنے پر ووٹر ناراض نظر آتا ہے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلز پارٹی نے سعید غنی کو اہم ٹاسک دیا اور وہ ٹاسک پارٹی کو کراچی میں پھیلانا تھا۔

سعید غنی نے بھی مایوس نہیں کیا، ایک طرف پارٹی کی جڑیں کراچی میں مضبوط کرنے کے لیئے انتہائی محنت سے کام کیا، کئی اہم مقامی رہنماؤں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرانے میں کامیاب ہوئے اور دوسری طرف پی ٹی آئی کو اپنے نشانے پر رکھا، شاید یہی وہ وجہ ہے کہ انہیں اب حکومت میں اہم ذمہ داری سونپیں گئیں ہیں۔

پیپلز پارٹی نے بھی بلدیاتی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے اہم فیصلہ کیا، جب مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا، جس سے یقیناً پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ مرتضیٰ وہاب کے دور میں مکمل ہونے والے تمام ترقیاقی کاموں کا کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کھل کر لے گی اور مرتضیٰ وہاب کراچی میں اپنے کاموں کے ذریعے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کریں گے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابیوں نے پیپلز پارٹی کو حوصلہ دیا، قادر مندوخیل کی مسلم لیگ ن کے واحد گڑھ سے قومی اسمبلی کی سیٹ نکالنا بھی بڑی کامیابی ہے۔

اب سندھ میں ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا فائدہ پیپلز پارٹی کو کتنا ہوتا ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر پی پی کو میڈیا مینیجمنٹ میں کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ پارٹی اپنی کامیابیوں کو بیان کرنے میں صاف ناکام نظر آتی ہے، جس کے لیئے انہیں نیا ذوالفقار مرزا بھی پارٹی میں تلاش کرنا ہوگا، جو سندھ میں پارٹی کو نئی جان دے، کارکنوں میں پارٹی کا دفاع کرنے کی ہمت دے اور پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے کی بھی طاقت رکھتا ہو۔

تحریر : عدنان ہاشمی

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.